Adeeba Nazar

Add To collaction

غروبِ محبت کی کہانی -


”نیویارک… حسام کے پاپا یہاں انقرہ میں کسی کانفرنس میں آئے ہیں… انہی کے ساتھ ہم دونوں بھی…“ میں نے جان بوجھ کر عفان کا نام نہیں لیا،اب اتنی ہمت نہیں تھی،حسام پاس ہی بیٹھا فاسٹ فوڈ کھا رہا تھا پھر وہ اٹھ کر گیمز کی طرف چلا گیا۔ بہت طویل خاموشی رہی ہم دونوں کے درمیان،اس کی نرم پھوار سی مسکراہٹ کئی بار بدلی لیکن آخر کار وہ ویسی ہی رہی جیسی کہ اسے ہونا چاہئے تھا ۔
مقدس،پاک،شفاف،قدسیہ کی طرح۔
میں اس سے نظریں نہیں ملا رہی تھی،سامنے ٹیبل پر رکھے اس کے دونوں ہاتھ میں نے اپنے ہاتھوں میں لے لئے اور اپنی آنکھوں سے لگا لئے۔
”مجھے معاف کر دو قدسیہ! میری آنکھوں نے اس کے ہاتھوں کو بھی گیلا کر دیا۔ قدسیہ نے ہاتھ سے میرے گال کھینچے اور اپنی آنکھوں میں آئی نمی صاف کی۔
”مت روؤ حوریہ! حسام تمہیں پلٹ کر دیکھ رہا ہے بچوں کیلئے ایسے مناظر بہت تکلیف دہ ہوتے ہیں جن میں ان کے والدین روئیں۔
”میں بے حد تکلیف میں ہوں،مجھے معاف کر دو،قدسیہ مجھے معاف کر دو… اور میرے لئے دعا کرو کہ میری سزا ختم ہو جائے،میں نے تم سے رابطہ کرنے کی سر توڑ کوشش کی،تم کہاں چلی گئی تھی تمہارے گھر کا نمبر بھی بند تھا۔“
”میرے بعد سب ہی آہستہ آہستہ دبئی شفٹ ہو گئے،تم چاہ کر بھی مجھے سے رابطہ نہیں کر سکتی تھی،حرا اور مانی امریکہ چلے گئے پڑھنے کیلئے،ماما پاپا میرے پاس آ گئے۔
”تم شیراز کے ساتھ خوش ہو؟“
”مجھے اب یہ فکر رہتی ہے کہ کیا میں نے شیراز کو خوش رکھا؟ کیا وہ مجھ سے خوش ہے؟ جس طرح میں اس کیلئے عذاب بنی اب مجھے اپنی نہیں اس کی فکر رہتی ہے۔ حوریہ میں اسے معاف کرنے کیلئے تیار نہیں تھی،اتنی بڑی آزمائش بن گئی تھی میں اس کیلئے،ایک دن میں نے اپنی دونوں کلائیاں کاٹ لی… اور یہ سب میں نے اس کے سامنے کیا،بعد ازاں اس نے میرے آگے اپنے دونوں ہاتھ جوڑ دیئے وہ بچوں کی طرح رو رہا تھا۔
اس نے مجھ سے کہا کہ صرف محبت کرنے کی اتنی بڑی سزا؟
وہ مجھے پاکستان واپس لے آیا،میرے کالج واپس لے آیا،اس نے مجھے کالج کے باہر ڈراپ کر دیا اور کہا کہ میں اپنی پسند کی زندگی اپنا لوں وہ میرے ساتھ ہے وہ میرا ساتھ دے گا،اس نے مجھ سے کہا کہ وہ میرے لئے دنیا سے سب کچھ چھین سکتا ہے لیکن مجھ سے میری خوشی نہیں چھین سکتا،چند قدم چلنے کے بعد میں نے پلٹ کر اس سے دیکھا… اور میں پلٹ کر کالج نہیں جا سکی… محبت کرنے والے ہی جانتے ہیں حوریہ کہ محبت کرنے والوں پر کیا گزرتی ہے… شیراز پر بری گزری تھی… میں ایک شادی شدہ عورت کالج کے اندر کیسے جا سکتی تھی،اس نے مجھے اتنا برداشت کیا تھا کہ اب کوئی اور مجھے برداشت نہیں کر سکتا تھا… یہ محبت ہی تھی کہ شیراز نے میرے طمانچے کھائے اور اف نہیں کی۔
قدسیہ نے رک کر میری طرف دیکھا۔
”میں نے شیراز کے ساتھ ہی زندگی گزارنے کا فیصلہ کر لیا،مجھے اس سے محبت نہیں، ہوگئی تھی لیکن اس نے سمجھوتا کر لیا تھا،اس سمجھوتے میں ساری گتھیاں سلجھتی ہی چلی گئی۔
اپنی فیملی سے نفرت،شیراز سے نفرت… اگر وہ ساری باتیں مجھے پہلے معلوم ہو جاتیں تو میں سب سے اتنی نفرت نہ کرتی،جس دن شیراز نے باتوں ہی باتوں میں تمہارا ذکر کیا اسی دن سب صاف ہو گیا،ماما سے پوچھا،تفصیلات اکٹھی کی اور میں پاگل ہو گئی سب جان کر… میرا خاندان،شیراز تو میرے ہی لئے سوچ رہے تھے… سب کو میری فکر تھی… اور مجھے صرف اپنی… شیراز کے ساتھ نفرت کی انتہا میں،میں نے کچھ سوچا ہی نہیں،سوائے اس کے کہ سارا قصور شیراز کا تھا،اس نے سالہا سال مجھ جیسی بیمار ذہن بیوی کی تیمار داری کی اور میں اسے لعن طعن کرتی رہی،آج بھی سوچ کر افسوس ہوتا ہے،تم نے ٹھیک کیا تھا وہ مجھے بہت خوش رکھے گا،وہ مجھ سے بہت محبت کرتا ہے… بہت…“
”میرے بارے میں تمہیں جا کر…“
”ہاں! بہت دکھ ہوا تھا میں نے تم سے اتنی نفرت کی حوریہ… اتنی کہ اگر تم اس نفرت کو دیکھ سکتی تو دیکھتی کہ دنیا میں صرف ایک تمہی سے اتنی نفرت کی گئی کوئی اور انسان تم سا قابل نفرت پیدا ہی نہیں ہوا،کچھ ذرائع سے میں نے عفان سے رابطہ کرنے کی کوشش کی مگر عفان کالج سے فارغ ہو کر جا چکا تھا۔
”میں تمہاری اتنی ہی نفرت کے لائق تھی۔“
”نہیں… حوریہ… ایسا نہیں ہے… جس دن میں نے پہلی ہارٹ سرجری کی،اس وقت میرے ہاتھ کانپنے لگے،میں نے سوچا کہ نفرت سے بھرا دل لئے میں کیسے کسی دوسرے دل میں زندگی دوڑا سکتی ہوں،میں مسیحا کیسے بن سکتی ہوں،ہمارے ایک سینئر سرجن ڈاکٹر ہر سرجری سے قبل،دونفل پڑھتے تھے،میری غیرت نے یہ گوارا نہ کیا کہ میں نفرت جیسے گناہ کو لے کر کسی کیلئے مسیحا بنوں،میں نے اپنا دل پاک کر یا… یہ آج بھی پاک ہی ہے… ہمیشہ پاک ہی رہے گا۔
”تم ہارٹ سرجن بن گئی ہو؟ میں پستی اور پستی کی طرف گئی۔“
”ہاں! شیراز نے مجھے بنایا ہے،اس نے میرا ادھورا خواب پورا کیا،وہ رات کو میرے لئے دن کرتا ہے،میرے قدموں کے نشانات وہ اپنی محبت سے چومتا ہے،شیراز تمہارا مشکور ہے حوریہ،وہ اکثر کہتا ہے صرف تمہاری وجہ سے ہماری شادی ہوئی ورنہ یہ شادی کبھی نہ ہوتی۔“ قدسیہ مسکرانے لگی۔
”تم نے مجھے کیوں معاف کیا قدسیہ؟ عظمت میں اتنا آگے نہیں نکل جانا چاہئے کہ مجھ جیسے گناہ گار پیدا ہونے لگیں،تمہیں مجھ سے نفرت ہی کرتے رہنا چاہئے تھا،قدسیہ! تمہارے لئے یہ گناہ نہیں تھا تمہارا حق تھا،میں نے تمہاری زندگی برباد کر دی۔
تمہیں اور عفان کو جدا کر دیا… تمہیں میرے منہ پر تھوکنا چاہئے،تمہیں مجھے ذلیل کرنا چاہئے۔“
”مجھے ایسا کبھی بھی نہیں کرنا چاہئے… تم…“
…   

   0
0 Comments